Sunday, April 5, 2015

عشق

عشق عربی زبان کا لفظ ہے محبت کا بلند تر درجہ عشق کہلاتا ہے اور یہی محبت کسی درجے پر جا کر جنوں کہلاتی ہے۔ عشق کا محرک مجازی یا حقیقی ہو سکتا ہے۔ یہ عشق نا ممکن کو ممکن بنا ڈالتا ہے ۔ کہیں فرہاد سے نہر کھد واتا ہے تو کہیں سوہنی کو کچے گھڑے پر تیرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ عشق ہی کی بدولت کوئی صدیق اکبر کہلاتا ہے تو کوئی سیدنا بلال بنتا ہے۔ غرض ہر عشق کے مدارج مختلف ہیں۔ کوئی عشق مجازی میں ہی گھر کر رہ جاتا ہے۔ تو کوئی عشق ِ مجازی سے حقیقی تک رسائی حاصل کرکے حقیقی اعزازو شرف حاصل کرتا ہے۔
عشق عربی زبان میں گہری چاہت کو کہتے ہیں جبکہ اس کی عقلی توجیہ کچھ اس طرح کہ عشق نام ہے بے لگام انسانی تڑپ کا جو کسی قاعدہ اور قانون کی پابند نہیں اس تڑپ کا تعلق محض وجدان سے ہوتا ہے جبکہ انسانی شعور عشق کا متحمل نہیں کیونکہ انسانی شعور اپنی عملی صورت میں کسی نہ کسی قاعدہ یا قانون کا پابند ہوتا ہے جبکہ عشق قواعد کا پابند نہیں، چنانچہ عشق کی اسی بنیادی خرابی کے باعث بعض اہل علم اسے بازاری لفظ سے تعبیر کرتے ہیں علماء کے نزدیک عشق کے علاوہ ایک عقلی اور الہامی صیغہ محبت موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے عشق اپنی انفرادی حیثیت کھو بیٹھتا ہے تاہم آج تک مسلمان علماءاور بالخصوص صوفیاء لفظ عشق کو محبت پر ترجیح دیتے رہے جس کا پھر نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ عشق ہی کو اصل چیز سمجھ بیٹھے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ محبت کو عشق کے مقابلے میں ہیچ سمجھا جانے لگا۔
5 Peyam E Mashraq: عشق عشق عربی زبان کا لفظ ہے محبت کا بلند تر درجہ عشق کہلاتا ہے اور یہی محبت کسی درجے پر جا کر جنوں کہلاتی ہے۔ عشق کا محرک مجازی یا حقیقی ہو سکت...

No comments:

Post a Comment

< >