عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دھکاؤ کہ کچھ رات کٹے
ہجر میں ملنے شب ماہ کے غم آۓ ہیں
چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے
کوئ جلتا ہی نہیں کوئ پگھلتا ہی نہیں
موم بن جاؤ پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے
چشم و رخسار کے اذکار کو جاری رکھو
پیار کے نامہ کو دھراؤ کہ کچھ رات کٹے
آج ہو جانے دو ہر ایک کو بد مست و خراب
آج ایک ایک کو پلواؤ کہ کچھ رات کٹے
کوہ غم اور گراں اور گراں اور گراں
غم زدہ تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے
مخدوم محی الدین
No comments:
Post a Comment