اس دھرتی کے شیش ناگ کا ڈنک بڑا زہریلا ہے
صدیاں گزریں ، آسماں کا رنگ ابھی تک نیلا ہے
میں ہوں اپنے پیار پہ قائم اُن کی رسمیں وہ جانیں
اور ہے ذات حسینوں کی اور میرا اور قبیلہ ہے
میرے اُس کے ہونٹ ہلیں تو کھِلیں ہزاروں پھول مگر
کچھ تو میں چُپ رہتا ہوں، کچھ یار مرا شرمیلا ہے
آنسو ٹپکے ہوں گے اِن پر حرف جبھی تو پھیل گئے
رویا ہے خط لکھنے والا، جبھی تو کاغذ گیلا ہے
میں نے کہا دو اجنبیوں کے دل کیسے مِل جاتے ہیں
پیار سے بولی اِک دیوی یہ سب بھگوان کی لِیلا ہے
یوں ہی تو نہیں کہتا رہتانظمیں، غزلیں، گیت قتیلؔ
یہ تو کسی کی محفل تک جانے کا ایک وسیلہ ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment